میں مرید کیوں اور کیسے ہوا!


 


 

ہر انسا ن کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ قرب خداوندی کے حصول کے لئے ذرائع تلاش کرتا ہے اور کسی رہبر کامل کی جستجو میں رہتا ہے چونکہ میرا تعلق سادات کے اس خاندان سے ہے جس میں ہر پشت کے اندر بڑ ے بڑے کامل اولیاء کرام گزرے ہیں ۔ہزارہ ڈویژن اور اسلام آباد کے قرب و جوار میں میرے آباؤ اجداد کی زندآہ کرامتیں آ ج بھی موجود ہیں ۔آباؤ اجداد کے واقعات سن کر مجھے یہ تمنا ہوئی کہ میں بھی ولی کامل بن جاؤں اور مجھے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوجائے چنانچہ بچپن سے میں کسی مرد کامل کی تلاش میں تھا مگر اس قحط الرجال میں کوئی ہستی نظر نہیں آتی تھی سینکڑوں اولیا ء اکرام پیران عظام سے ملاقات کی مگر کہیں بھی دل کو تسلی نہیں ہو پارہی تھی کہیں علم تھا اور شریعت کی پابندی تھی مگر علم تصوف نہیں تھا۔کہیں تصوف کی تعلیم تو دی جاتی تھی مگر شریعت کی پابندی نہیں تھی۔حالانکہ میں جہاں بھی جاتا بڑی پذیرائی ہوتی تھی اور پیران عظام از خود اپنے سلسلوں کی خلافتوں سے نوازتے مگر میرا دل کہیں بھی مطمئن نہیں ہوا آ خر مجبور ہو کر خود ہی ذکروفکر میں مشغول ہوجاتا تھا اور اشغال طریقت اور ارتکاز توجہ کی مشقیں کرتا رہتا تھا جس سے مجھے کافی فوائد ہوتے تھے ۔
اسمِ ذات کا ذکر حبس دم کے ساتھ اکثر کرتا رہتا تھا چنانچہ پاس انفاس ،ذکرلطائف ،شغل انھدذکر حدادی اور دوسرے سینکڑوں اشغال میں مصروف رہتا تھا مگر پھر بھی دل کی تشنگی نہیں جاتی تھی چنانچہ ایک دن میں نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی غوث صمدانی رحمتہ اللہ کی طرف منسوب استخارہ دیکھا جس میں لکھا تھا کہ یہ استخارہ اگر چند روز کیا جائے تو خواب میں مرشد کامل کی طرف رہنمائی ہوتی ہے چنانچہ میں نے یہ استخارہ روزانہ کرنا شروع کردیا جس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دو رکعت نفل بہ نیت استخارہ ادا کئے جائیں اس کے بعد درود شریف ایک تسبیح پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل دعائے استخارہ پڑھتے پڑھتے سوجائے۔
یارب دلّنی علی عبد من عبادک المقربین یدلنی علیک ویعلمنی طریق الوصولِ الیک ۔
چنانچہ میں روزانہ حضرت آخند زادہ صاحب کو خواب میں دیکھتا تھا مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ نورانی شخصیت کون ہے اور کہاں رہتی ہے؟چنانچہ میں بڑا پریشان ہوا اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ یا اللہ مجھے اس ہستی کا پتہ بتایا جائے چنانچہ ایک دن میں خواب میں دیکھا کہ میں کراچی کے ایک مشہور معروف عالم دین اور حضرت آخند زادہ صاحب کے خلیفہ مجاز حضرت علامہ مولانا سید احمد علی شاہ صاحب میرے ساتھ ہیں اور خواب ہی میں ہم کراچی سے کوہاٹ اور کوہاٹ سے پشاور گئے اور وہاں سے مرشد آباد باڑہ شریف پہنچے ۔وہاں پہنچتے ہی میرے گوہر مطلوب حضرت خواجہ سیف الرحمن صاحب مد ظلہ العالیہ کو جلوہ افروز دیکھا اور فرط جذبات سے مغلوب ہوکر میں نے آپ کے ہاتھ چوم کر رونا شروع کردیا۔اتنے میں خواب سے بیدار ہوا تو دیکھا کہ صبح کا وقت تھا طبیعت کے اندر مستی و سرور کی کیفیت تھی چنانچہ میں نے وضو کیا اور اس خمار و لذت کی کیفیت میں نماز تہجد ادا کی۔
دوسرے دن میں نے حضرت قبلہ سیداحمد علی شاہ صاحب کو خواب سنایا اور انہیں عرض پیش کی کہ آپ میرے ساتھ پشاور چلیں سید احمد علی شاہ صاحب فوراََتیار ہوئے میں بڑا خوش تھا کیوں کہ مجھے اپنی منزل قریب نظر آرہی ہے چنانچہ ہم نے رخت سفر باندھا اور پشاور کی طرف روانہ ہوئے دل میں ایک کیفیت تھی اور اسی سوچ میں محو تھا کہ حضرت صاحب سے ملاقات کی کیا کیفیت ہوگی کیوں کہ عقلمندوں نے کہا ہے کہ عالم دین کے پاس زبان سنبھال کر جانا چاہیے اور ولی کے سامنے دل سنبھال کر جانا چاہیے۔میں یہ بھی سوچ رہاتھا کہ میں گنہگار ہوں ،سیاہ کاراور غافل انسان ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت آخند زادہ صاحب اپنی چشم باطن سے میرے گناہوں کو دیکھ کر مجھے قبول کرنے سے انکار کردیں تمام راستے
استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ
کا ورد کرتا رہا۔آخر کار ہم حضرت صاحب کی خانقاہ میں پہنچ گئے۔حضرت صاحب خانقاہ میں موجو د نہیں تھے اپنے دولت کدہ پر آرام فرمارہے تھے ہم نے سامان رکھا لنگر شریف تناول کیااور پھر ظہر کی نماز کے لئے وضو تازہ کیا خانقاہ شریف میں آپ کے مریدین اور معتقدین کا ہجوم تھا ذکر جذب اور مستی میں ہاؤ ہو کی صدائیں بلند ہورہی تھیں چنانچہ ہم مسجد میں گئے اور سنتیں پڑھیں اکثر مریدین وجد و جذب میں چیخ رہے تھے تمام سالکین شریعت کے پابند تھے سب کے سروں پر عمامہ شریف بندھا ہوا تھا اور شرعی لباس سے آراستہ تھے کوئی داڑھی منڈا اور بغیر عمامہ نظر نہیں آیا تمام سالکین کے لطائف جاری تھے اور درودیوار سے اللہ ہو کی صدائیں بلند ہورہی تھیں اتنے میں ایک شور برپا ہوا اورھا ہو کی صدائیں بلند ہونے لگیں سب لوگ کھڑے ہوگئے جس سے اندازہ ہوا کہ حضرت صاحب آرہے ہیں جیسے ہی عاشقین کی نگاہیں حضرت صاحب پر پڑیں توتمام عشاق مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے میرا دل بھی دھک دھک دھڑکنے لگا جب حضرت صاحب تشریف لے آئے اور آپ کے نورانی چہرے اور وجود مسعود پر نظر پڑی تو فوراً میری زبان سے یہ نکلا
سُبْحَانَ اللہ مَاَ اجْمَلَکَ مَا احْسَنَکَ
اور مصر کی عورتوں کی طرح آپ کے حسن لا زوال سے متاثر ہو کر
حاش للہ ما ھذا بشر ان ھٰذالا ملک الکریم
حَاشَ لِلّٰہِ مَا ھٰذَابَشَرًا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَک’‘ کَرِیْم’‘

اور آپ کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ آپ او لیاء کاملین میں سے ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا اذارأوذکر اللہ چنانچہ ہم نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔
جب آپ نے سنتوں کے بعد بہ ہئیت اجتماعیہ دعا کے لئے مڑے جیسے ہی ان کی نظر کیمیا اثر سالکین پر پڑی سالکین بے اختیا ر وجد میں آگئے اور جذب کی حالت طاری ہوئی جس کو لکھنے سے میرا قلم قاصر ہے سرکار غوث پاک اور اولیاء کاملین کی جو کیفیت میں نے کُتب میں پڑھی تھی آج وہی کیفیت میری نظروں کے سامنے تھی ۔میرے ذہن میں حضور ﷺ کی وہ حدیث ظاہر ہوئی جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا
من اَرادان یجلس مع اللہ فلیجلس مع اھل التصوف
جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ کا ہم نشین ہو تو وہ اللہ والوں کے پاس بیٹھے ۔
حضرت مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں۔
ھرکہ خواھدھم نشینی باخدا او نشید در حضور اولیاء
چوں شوی دوراز حضور اولیاء در حقیقت گشتہۂ دوراز خدا
یعنی جو شخص خدا کے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اولیاء اللہ کے پاس بیٹھے جب کوئی (شخص )اولیا ء اللہ سے دور ہوتا ہے (تو)حقیقتاََوہ اللہ سے دور ہوتا ہے۔اہل معرفت کی صحبت میں اس قدر برکت ہے کہ جو ثمرہ سینکڑوں چلوں کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتا وہ اولیااللہ کی ہم نشینی سے تھوڑے عرصے میں مل جاتا ہے اس لئے عارف باللہ حضرت مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ نے مردان خدا کی ایک گھڑی محبت کو سو چلوں سے بہتر لکھا ہے ۔
صحبت مرداں اگر یک ساعت است
بھتر از صد چلہ وصد طاعت است
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
یعنی اللہ والوں کی ایک ساعت کی صحبت سو چلوں اور سینکڑوں سالوں کی عبادتوں سے بہتر ہے۔اولیا اللہ کی قلیل سی صحبت سو سالہ خالص عبادت سے بہتر ہے۔
دعا کے بعد حضرت مبارک صاحب کی دست بوسی کا شرف حاصل ہوا تعارف کے بعد آپ خانقاہ میں تشریف لے گئے اور کرسی ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے تو جہات کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ میں آپ کے دیدار پر انوار سے مستفید ہونے لگا اور الہام کی طرح میرے دل پر مولانا رومی ؒ کے ان اشعار کی آمد ہونے لگی ۔
گر تر اعقل است بادانش قرین
با ش درویش وبدرویشاں نشین
اگر تجھ کو عقل و تمیز ہے
درویش بن اور درویشوں کے ساتھ بیٹھ
ہم نشینی جزبہ درویشاں مکن
تاتوانی غیبت ایشاں مکن
سوائے درویشوں کے کسی کے پا س مت بیٹھ
جب تک تجھ سے ہو سکے ان کی غیبت نہ کر
حب درویشاں کلید جنت است
دشمن ایشاں سزائے لعنت است
میں نے حضرت مبارک صاحب کو جنگل میں منگل بناتے ہوئے دیکھا کہ دنیا آتی ہے اور فیوض وبرکات سے مالا مال ہو کر واپس ہوتی ہے۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کو ارادت ہوتو دیکھ ان کو ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں ۔
چنانچہ تین دن تک حضرت صاحب نے اور آپ کے اجل خلفاء نے اپنی توجہات سے مجھے نوازا مگر میں بہت شرمند ہ تھا کہ مجھ پہ جذب و حال کی کیفیت طاری نہیں ہورہی تھی یہی سوچا تھا حضرت مبارک صاحب نے فرمایا کہ بعض لوگ اصحاب تمکین ہوتے ہیں ۔ان کا جذب پوشیدہ ہو تا ہے صرف بدن میں تھر تھر اہٹ محسوس ہوتی ہے یا سرور کی کیفیت طاری ہوتی ہے یا پھر رقت قلبی کی بناء پر رونے کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے چنانچہ میری یہی کیفیت تھی آج جمعتہ المبارک کی رات تھی گردو نواح سے لوگ آئے ہوئے تھے ہر طرف انوار و تجلیات کی بارش تھی اور تمام حاضرین پر خصوصی فیضان کاورود جاری تھا کہ حضرت مبارک صاحب نے مجھے بلایا اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سیفیہ میں بیعت فرمایا اور لطائف عشرہ میں توجہ دی دوسرے خلفاء بھی اپنی ہمت اور توجہ مجھ پر مبذول کئے ہوئے تھے چنانچہ میرے دل کی حالت عجیب ہوگئی اور پورا وجود کانپنے لگا اور میں کپکپی کی کیفیت میں میرے تن بدن میں انقلاب کی کیفیت پیدا ہوئی اور شعور کے باوجود اختیار کا دامن میرے ہاتھوں سے چھوٹ گیا اور بے اختیار جذب کی کیفیت طاری ہوگئی اور اسی بے اختیاری میں دوڑنے لگا اور خود کو فضائے بسیط میں ذرّہ کی طرح غلطاں و پیچاں محسوس کرنے لگاجب اس کیفیت میں تھا تو مجھے ایسا عروج نصیب ہوا جو بیان سے باہر ہے اس کیفیت کا میں عرصے سے متلاشی تھااور جس کے حصول کے لئے سینکڑوں چلے کاٹے مگر مجھے یہ حال اور کیفیت حاصل نہ ہوئی اور جب ہوئی تو مرد کامل کی ایک توجہ سے حاصل ہوگئی کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
آں جا کہ زاہداں بہ ھزار اربعین رسند
مستِ شرابِ عشق بہ یک آہ می رسد
میرے لطائف ہتھوڑے کی طرح چل رہے تھے مجھ پر ایک سرور کا عالم اور وجد کی کیفیت طاری تھی حاصل یہ کہ مجھے ایک ہی صحبت میں سند خلافت عطا فرماکر ذکر دینے کی اجازت مرحمت فرمادی اس کے بعد مسافت کے باوجود حضرت مبارک صاحب کی صحبت میں آتا رہا اور فیض حاصل کرتا رہا یہاں تک کہ مجھے چاروں خلافتوں سے نوازا گیا اور حضرت مبارک صاحب نے کمال مہربانی اور شفقت فرماتے ہوئے خلیفہ مطلق بنادیا۔کراچی میں گلشن معمار سے متصل عبداللہ گبول گوٹھ میں خانقاہ مشہھدی اور جامع مسجد عثمانیہ میں سالکین کو سلوک کی تعلیم دے رہا ہوں اور نشرو اشاعت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔الحمداللہ میرے ہاتھوں پر ہزاروں افراد نے بیعت کر رکھی ہے ۔روحانی علاج کے سلسلے میں بھی ایک خلقت صبح تاشام علاج اور رہنمائی کے لیے تشریف لاتی ہے۔ہر اتوار کو خصوصی محفل ذکر کا سلسلہ عصر تا بعد نماز عشا تک جاری رہتا ہے ۔